قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالحُدَاءِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الغَاوُونَ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ، وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لاَ يَفْعَلُونَ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا، وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ} [الشعراء: 225] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فِي كُلِّ لَغْوٍ يَخُوضُونَ»

6146. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، سَمِعْتُ جُنْدَبًا، يَقُولُ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذْ أَصَابَهُ حَجَرٌ، فَعَثَرَ، فَدَمِيَتْ إِصْبَعُهُ، فَقَالَ: «هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ ... وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ شعراءمیں فرمایا ، شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ وہ باتیں ، کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اوراللہ کا کثرت سے ذکرکیااورجب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ( فی کل واد یھیمون ) کا مطلب یہ ہے کہ ہرایک لغو بے ہودہ بات میں گھستے ہیں ۔تشریح : رجز وہ شعر جو میدان جنگ میں پڑھے جاتے ہیں اپنی بہادری جتلانے کے لئے اور حدی وہ موزوں کلام جو اونٹوں کو سنایا جاتا ہے تاکہ وہ گرم ہوجائیں اور خوب چلیں یہ حدی خوانی عرب میں ایسی رائج ہے کہ اونٹ اسے سن کر مست ہوجاتے اور کوسوں بغیر تھکنے کے چلے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ان اونٹوں کی جگہ ملک عرب میں بھی کاروں، بسوں نے لے لی ہے الا ما شاءاللہ ۔ آیت میں ان شعروں کے جواز پر اشارہ ہے جو اسلام کی بر تری اور کفار کے جواب میں کہے جائیں ۔ حضرت حسان ایسے ہی شاعر تھے جن کو دربار رسالت کے شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔

6146.

حضرت اسود بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جندب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ایک مرتبہ نبی ﷺ چل رہے تھے کہ اچانک آپ کو پتھر سے ٹھوکر لگی۔ آپ گر پڑے اور آپ کی انگلی سے خون بہنے لگا تو آپ نے فرمایا: ”تو تو اک انگلی ہے اور کیا ہے جو زخمی ہو گئی کیا ہوا اگر راہ مولٰی میں تو زخمی ہو گئی۔“