تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ عنوان کوئی مسئلہ ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک حدیث کی وضاحت کرنے کے لیے ہے کیونکہ حدیث کے ظاہری الفاظ مطلق طور پر اشعار کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد ایسے اشعار ہیں جو فحش اور اخلاق کو خراب کرنے والے ہوں یا ایسے شاعر مراد ہیں جو رات دن شعر گوئی میں مست رہیں اور شعروں کے علاوہ انہیں کسی کام سے کوئی سروکار نہ ہو، نہ قرآن پڑھیں نہ حدیث یاد کریں اور اللہ کے ذکر سے غافل رہیں یا اس سے مراد وہ شعر ہیں جو ظالم و جابر حکمرانوں کی تعریف میں کہے گئے ہوں یا جن میں عورتوں کے محاسن بیان کیے گئے ہوں۔
(2) اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمن کے علاقے عرج میں سفر کر رہے تھے کہ ایک شاعر سامنے آیا اور اشعار پڑھنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شیطان کو پکڑو یا اس شیطان کو شعر کہنے سے روکو۔‘‘ اس کے بعد آپ نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح مسلم، الشعر، حدیث:5895(2259))