قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ مَنْ نَظَرَ فِي كِتَابِ مَنْ يُحْذَرُ عَلَى المُسْلِمِينَ لِيَسْتَبِينَ أَمْرُهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

6259. حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بُهْلُولٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ بْنَ العَوَّامِ وَأَبَا مَرْثَدٍ الغَنَوِيَّ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، فَقَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ»، فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ المُشْرِكِينَ، مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى المُشْرِكِينَ، قَالَ: فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: أَيْنَ الكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، قَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى كِتَابًا، قَالَ: قُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ، لَتُخْرِجِنَّ الكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتِ الجِدَّ مِنِّي أَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا، وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الكِتَابَ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ يَا حَاطِبُ عَلَى مَا صَنَعْتَ» قَالَ: مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَا غَيَّرْتُ وَلاَ بَدَّلْتُ، أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ القَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ هُنَاكَ إِلَّا وَلَهُ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ: «صَدَقَ، فَلاَ تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا» قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: فَقَالَ: يَا عُمَرُ، وَمَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

مترجم:

6259.

حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت ابو مرثد غنویٰ ؓ  کو بھیجا۔ ہم تینوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور روضہ خاخ پہنچو وہاں تمہیں ایک مشرکہ عورت ملے گی۔ اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو انہوں نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔“ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے وہاں ایک عورت کو پا لیا جو اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جا رہی تھی وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ہم نے اس سے کہا: جو خط تم اپنے ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوے میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہ دستیاب نہ ہو سکا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی خط وغیرہ نظر نہیں آیا۔ میں نے کہا مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی۔ اس ذات کی قسم جس کے نام پر قسم اٹھائی جاتی ہے تم خط نکالو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر کے خط برآمد کریں گے جب اس عورت نے دیکھا کہ میں اپنے ہاتھ بڑھایا جبکہ وہ چادر باندھے ہوئے تھی اور خط نکال کر دیے دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کی: میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں، میرے اندر کوئی تغیر وتبدیلی نہیں آئی۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر کچھ احسان ہو جائے تاکہ اس کے سبب اللہ تعالٰی میرے اہل وعیال اور مال ومتاع کی نگرانی فرمائے آپ کے جتنے اصحاب ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے زریعے سے اللہ تعالٰی ان کے مال اوراہل وعیال کی حفاظت فرماتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا ہے اب تم لوگ اس کے متعلق بھلائی اور خیر سگالی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔“ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اس شخص نے اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان سے خیانت کی ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمر! تمہیں کیا معلوم یقیناً اللہ تعالٰی اہل بدر کی زندگی پر مطلع تھا اس کے باوجود اس نے کہا: تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔