قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ مَنْ نَاجَى بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ، وَمَنْ لَمْ يُخْبِرْ بِسِرِّ صَاحِبِهِ، فَإِذَا مَاتَ أَخْبَرَ بِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

6285.01. حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا فِرَاسٌ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أُمُّ المُؤْمِنِيِنَ، قَالَتْ: إِنَّا كُنَّا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ جَمِيعًا، لَمْ تُغَادَرْ مِنَّا وَاحِدَةٌ، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تَمْشِي، لاَ وَاللَّهِ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ قَالَ: «مَرْحَبًا بِابْنَتِي» ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى حُزْنَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ، فَإِذَا هِيَ تَضْحَكُ، فَقُلْتُ لَهَا أَنَا مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ: خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّرِّ مِنْ بَيْنِنَا، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا: عَمَّا سَارَّكِ؟ قَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ، قُلْتُ لَهَا: عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الحَقِّ لَمَّا أَخْبَرْتِنِي، قَالَتْ: أَمَّا الآنَ فَنَعَمْ، فَأَخْبَرَتْنِي، قَالَتْ: أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الأَمْرِ الأَوَّلِ، فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي: «أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَارَضَنِي بِهِ العَامَ مَرَّتَيْنِ، وَلاَ أَرَى الأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنِّي نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ» قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، قَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، أَلاَ تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ المُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الأُمَّةِ»

مترجم:

6285.01.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات آپ کے پاس تھیں ہم میں ایک بھی غائب نہ تھی۔ اس دوران میں سیدہ فاطمہ ؓ چلتی ہوئیں آئیں اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے الگ نہ تھی۔ جب آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ”میری لخت جگر! خوش آمدید“ پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں بٹھایا، اس کے بعد ان سے آہستہ کچھ کہا تو وہ بہت روئیں۔ جب رسول اللہ نے ان کا حزن وملال دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان (سیدہ فاطمہ ؓ) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی ہے  پھر آپ رونے لگیں۔ جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا: آپ ﷺ نے آپ کے کان میں کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز افشا نہیں کروں گی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو میں نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ س‬ے کہا: میرا جو حق آپ پر ہے میں اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں، انہوں نے کہا: ہاں، اب بتا سکتی ہوں، چنانچہ انہوں نے نے مجھے بتایا کہ جب آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ مجھ سے سر گوشی کی تھی تو فرمایا تھا: جبرئیل ؑ مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کرتے تھے انہوں نے اس سال دوبار مجھ سے قرآن دور کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میری وفات قریب آ چکا ہے۔ تم اللہ تعالٰی سے ڈرتی رہو اور صبر سے کام لینا میں تمہارے لیے بہترین میر سفر ہوں گا۔ سیدہ نے فرمایا: اس وقت میرا رونا کو آپ نے دیکھا اس کی وجہ یہی تھی۔ جب آپ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: فاطمہ بیٹی! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوکہ جنت میں تم تمام اہل ایمان خواتین کی سردار ہوگی یا خواتین امت کی سردار ہوگی؟