تشریح:
(1) یہ حدیث مفہوم مخالف کے اعتبار سے عنوان کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، یعنی اگر تین سے زیادہ ہوں تو ان میں سے دو آدمی خفیہ بات کرسکتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ راوئ حدیث ابو صالح نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اگر چار افراد ہوں تو؟ انھوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4852)
(2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل تھا کہ اگر تین آدمیوں کی موجودگی میں کسی سے راز کی بات کرنا چاہتے تو کسی چوتھے آدمی کو ساتھ ملا لیتے۔ بہرحال تیسرے کو چھوڑ کو آپس میں سرگوشی کرنا یا کسی ایسی زبان میں بات کرنا جو اس کی سمجھ میں نہ آتی ہو اس کے لیے ازحد تکلیف کا باعث ہے اور اس کی عزت وکرامت کے بھی خلاف ہے۔ واللہ أعلم