تشریح:
(1) مومن آدمی گناہوں کے تصور کو بہت بھاری خیال کرتا ہے گویا گناہ پہاڑ ہے جو اس پر گر پڑے گا، اس کے برعکس فاجر انسان گناہوں کو بہت ہلکا سمجھتا ہے گویا ایک مکھی جو اس کے ناک پر بیٹھ جاتی ہے وہ اسے اپنے ہاتھ سے اڑا دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کی خوشی کو ایک تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے کہ ایک اونت سوار جو جنگل سے گزر رہا ہو، جب تھک کر ایک درخت کے سائے میں ٹھہر جائے اور سو جائے، جب بیدار ہو تو اپنے اونٹ کو سازوسامان سمیت ہی گم پائے۔ اِدھر اُدھر تلاش کرنے کے بعد جب نہ ملے تو اسی درخت کے نیچے اس خیال سے سو جائے کہ اب میں مر جاؤں گا، لیکن جب بیدار ہو تو اپنے اونٹ کو سامان سمیت وہاں کھڑا دیکھے، ایسے شخص کے دل میں انتہائی خوشی کی لہر اٹھتی ہے جو موت کے منہ سے بچ نکلا ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
(2) بہرحال بندے کی سچی توبہ سے اس کے گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: ’’جب اس شخص نے اپنے گم شدہ اونٹ کی مہار پکڑی تو خوشی کی شدت میں یہ الفاظ کہہ ڈالے: ’’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں وہ شخص شدتِ فرحت کی وجہ سے غلط الفاظ کہہ بیٹھا۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 6960 (2747)) بہرحال انسان کو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’لوگو! اللہ کے حضور توبہ کرو، میں خود دن میں سو مرتبہ اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6859 (2702))