تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں کچھ تمہارے دشمن ہیں، لہذا ان سے ہوشیار رہو۔'' (التغابن: 14) اولاد، دشمن اس معنی میں ہے کہ انسان اس کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر اتر آئے۔ ایسے حالات میں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے، لیکن اگر اولاد، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مددگار ہو تو یہ بڑی بابرکت اولاد ہے۔ اس صورت میں اسے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت قرار دیا جا سکتا ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں برکت کے ساتھ کثرت اولاد کی دعا کو جائز قرار دیا ہے اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا ذکر ہے، چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کثرت اولاد سے نوازا، ان کا اپنا بیان ہے کہ میری بیٹی امینہ نے مجھے بتایا ہے کہ حجاج بن یوسف کے بصرہ آنے سے پہلے پہلے ایک سو بیس صلبی بچے فوت ہو چکے تھے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1982) حضرت انس رضی اللہ عنہ کے جو بچے اس وقت زندہ تھے ان کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا ہے: میرے بیٹے اور پوتے سو سے زیادہ ہیں۔ (فتح الباري: 291/4) جب وہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے تو ان کے ساتھ ان کی اولاد میں سے ستر افراد سے زیادہ ہوتے تھے۔ (عمدة القاري: 437/15)