تشریح:
اس حدیث میں سفر سے واپسی کی دعا کا ذکر ہے، البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قائم کردہ عنوان میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کے آغاز کی دعا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جانے کے لیے سواری پر بیٹھ جاتے تو یہ دعا پڑھتے: (الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر،«سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ» (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3275 (1342)) ''اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہماری سواری کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ورنہ ہم اسے قابو کرنے والے نہ تھے۔ بالآخر ہم بھی اپنے مالک کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا سوال کرتے ہیں، نیز ان اعمال کا جو تیری رضا کا باعث ہوں۔ اے اللہ! تو اس سفر کو ہم پر آسان کر دے اور اس کی لمبائی اور طوالت کو ہمارے لیے مختصر کر دے۔ اے اللہ! بس تو ہی اس سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور تو ہی ہمارے پیچھے ہمارے مال اور اہل و عیال کی نگرانی کرنے والا ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سفر کی مشقت سے اور اس بات سے کہ دوران سفر میں کوئی رنج والی اور تکلیف دہ بات دیکھوں یا سفر سے لوٹ کر اپنے اہل خانہ میں کوئی بری بات پاؤں۔ اس دعا کا ایک ایک جز اپنے اندر کمال درجے کی معنویت رکھتا ہے۔ واللہ المستعان