تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''امید ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔'' (بنی اسرائیل: 79) نیز فرمایا: ''آپ کی آخرت، اس دنیا سے کہیں بلند مرتبہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔'' (الضحیٰ 4-5) چونکہ دعا ایک عبادت بلکہ روح عبادت ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دعائیں مانگی ہیں۔ پھر آپ نے اظہار عبادیت یا امت کو تعلیم دینے کے لیے مذکورہ دعائیں کی ہیں۔ یہ دعائیں اس بنا پر نہیں ہیں کہ واقعی آپ گناہ گار یا خطا کار تھے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم اور نافرمانی سے مبرا تھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔ (الفتح: 9)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں دوران نماز میں سلام سے پہلے پڑھتے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد پڑھتے تھے۔ ان روایات کے پیش نظر اس امر کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام سے پہلے اور بعد دونوں مواقع پر یہ دعائیں پڑھتے ہوں۔ (فتح الباري: 236/11)