قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ (بَابُ:الصِّحَّةِ وَالفَرَاغُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لاَ عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الآخِرَةِ

6412.01. قَالَ عَبَّاسٌ العَنْبَرِيُّ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺکا یہ فرمان کہ زندگی درحقیقت آخرت ہی کی زندگی ہے۔تشریح : اس کتاب میں امام بخای  نے وہ احادیث جمع کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے،رقاق رقیقۃ کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہیں نرمی ، رحم ، شرمندگی، پتلاپن۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ ”الرقاق والرقائق جمع رقیقۃ، وسمیت ھذہ الاحادیث بذالک لان فی کل منھا ما یحدث فی القلب رقۃ ، قال اھل اللغۃ الرقۃ الرحمۃ وضد الغلظ : یقال للکثیر الحیاء رق وجہہ استحیاء ۔ وقال الراغب : متی کانت الرقۃ فی جسم وضد ھا الصفاقۃ کثوب رقیق وثوب صفیق۔ ومتی کانت فی نفس فضدھا القسوۃ کرقیق القلب وقاسی القلب۔ “ ( فتح الباری ) یعنی رقاق اور رقائق رقیقہ کی جمع ہے اور ان احا دیث کو یہ نام اس وجہ سے دیاگیا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایسی باتیں ہیں جن سے قلب میں رقت پیداہوتی ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں رقت یعنی رحم ( نرمی ،غیرت ) اس کی ضد غلظ ( سختی ) ہے چنانچہ زیادہ غیرت مند شخص کے بارے میں کہتے ہیں حیاسے اس کا چہرہ شرم آلود ہوگیا۔ امام راغب فرماتے ہیں۔ رقہ کا لفظ جب جسم پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد صفاقہ ( موٹا پن ) آتی ہے، جیسے ثوب رقیق ( پتلا کپڑا ) اور ثوب صفیق ( موٹا کپڑا ) اور جب کسی ذات پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد قسوۃ ( سختی ) آتی ہے جیسے رقیق القلب ( نرم دل ) اور قاسی القلب ( سخت دل)‘‘

6412.01.

عباس عنبری نے کہا: ہم سے صفوان بن عیسیٰ نے بیان کیا عبداللہ بن سعید بن ابوہند سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انھوں نے اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کیا ہے۔