تشریح:
(1) بندۂ مومن کے ہر کام میں ثواب کی امید کی جا سکتی ہے بشرطیکہ طلب ثواب کی نیت ہو۔ اس نیت کو شریعت نے احتساب کا نام دیا ہے، بلکہ ہر مصیبت اور پریشانی میں اگر ثواب کی نیت سے صبر کیا جائے تو اس میں بھی ثواب کا وعدہ ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
(2) واضح رہے کہ حدیث میں ''محبوب چیز'' سے مراد عام ہے، خواہ کوئی پیارا بچہ ہو یا اور کوئی پیاری چیز، اس بنا پر اگر کسی کا بچہ فوت ہو جائے یا اس کی بینائی جاتی رہے اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے تو اللہ تعالیٰ نے اسے جنت دینے کا وعدہ کیا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آتا تھا اور اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا بھی آیا کرتا تھا۔ چند دن وہ آپ کی مجلس سے غائب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا؟ لوگوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، اس لیے وہ پریشان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اسے یہ بات پسند نہیں کہ وہ جنت کے کسی بھی دروازے کے پاس جائے تو اپنے بیٹے کو وہاں انتظار کرتا پائے؟‘‘ یہ بشارت سن کر ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ خوشخبری صرف اس آدمی کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم سب کے لیے ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 436/3)