تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال کے ساتھ گھاس چرنے والے حیوان کی مثال دے کر اعتدال پسندی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور جو جانور بے اعتدالی سے اس گھاس کو کھاتا ہے وہ بدہضمی سے ہلاک ہوتا ہے یا بیماری اسے دبوچ لیتی ہے۔ دنیا کے مال و متاع کی بھی یہی مثال ہے۔ یہاں بھی ہر حال میں اعتدال اور میانہ روی بہت ضروری ہے۔
(2) قرآن کریم میں ہے: ’’یہ مال و اولاد تو محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے اور اچھی امیدیں لگانے کے اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔‘‘ (الکھف: 46) اس کا مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اخروی زندگی کو ہی فراموش کر کے صرف انہی چیزوں کو اپنا مقصود زندگی بنا لے بلکہ ان چیزوں کو اللہ کے راستے میں لگا کر اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا: ''جو شخص اللہ سے ڈرے، اس کے لیے مال داری میں کوئی حرج نہیں، صحت مندی صاحب تقویٰ کے لیے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔'' (مسند أحمد: 372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مال داری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو تو اس میں دین کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو بھی یہی دولت، جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت مندی کے ساتھ فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق بہت ہی کم لوگوں کو ملتی ہے، اکثر لوگ دولت کے نشے میں بہک جاتے ہیں۔ واللہ المستعان