تشریح:
(1) اس حدیث میں شیطان کی طرف سے دھوکا دینے کی ایک صورت بیان کی گئی ہے کہ اب تمہارے پہلے گناہ تو معاف کر دیے گئے ہیں، لہذا مزید گناہ سرعام کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس دھوکے میں مت پڑو کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں بلکہ اس سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ باقی رہے کبیرہ گناہ تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہوں گے۔ اسی طرح جو حقوق العباد ہیں وہ بھی حق داروں کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے۔
(2) واضح رہے کہ جو انسان ڈھٹائی اور اصرار سے صغیرہ گناہ کرتا ہے۔ ایسا گناہ بھی کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت حمران سے تین قسم کی روایات مروی ہیں: ٭صرف وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر اس کی نماز اور نماز کے لیے مسجد کی طرف جانا ایک اضافی عمل ہے جس کا الگ سے ثواب ملنے کی توقع ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 544 (229)) ٭ جب اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھے اور دلی خیالات میں مصروف نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 159) اس میں فرض نماز کا ذکر نہیں ہے۔ ٭ اچھی طرح وضو کر کے فرض نماز باجماعت یا مسجد میں ادا کرے تو اس نماز سے پہلے کیے گئے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 543 (228)) اس میں دلی خیالات کو ترک کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ واللہ أعلم
(3) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ انسان کو دھوکے باز شیطان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ انسان سمجھے کہ سب گناہ معاف کر دیے گئے اب فکر ہی کیا ہے؟