تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال دار کو دیکھ کر فرمایا: اگر ساری دنیا ایسے مال داروں، متکبروں سے بھر جائے تو ان سب سے ایک مخلص مومن شخص بہتر اور اعلیٰ ہے جو بظاہر فقیر نظر آتا ہے۔
(2) اس حدیث سے ان سرمایہ داروں کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے جو قارون بن کر زندگی بسر کرتے ہیں اور مغرور رہتے ہیں، لیکن اگر فقیری کے ساتھ دل کا غنا ہے تو یہ ناداری اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ فقیری حضرات انبیاء علیہم السلام اولیاء اور اتقیاء امت کی سنت ہے لیکن اگر فقیری کے ساتھ حرص، لالچ اور طمع ہو تو اس قسم کی فقیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، نیز اس فقیری کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان گداگری شروع کر دے، بلکہ وہ فقیر عزت و تکریم کے قابل ہے جو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر راضی ہو، اس پر صبر کرے اور زبان پر کسی قسم کا حرف شکایت نہ لائے پھر حلال اور پاکیزہ روزی کمانے کی پوری پوری کوشش اور محنت بھی کرے اور لوگوں سے مانگنے کی ذلت کو اپنے پاس نہ آنے دے۔ واللہ أعلم