تشریح:
(1) بندے کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے برے خاتمے سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔ حسن خاتمہ کی چند ایک علامات حسب ذیل ہیں: ٭ وفات کے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3116) ٭ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 982) ٭ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا۔ (مسند احمد: 196/2) ٭ میدان قتال و جہاد میں شہادت کی موت حاصل کرنا۔ (مسند أحمد: 131/4) ٭ طاعون کی بیماری سے موت آنا۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2830) ٭ ٹی بی کی بیماری میں وفات پانا۔ (مجمع الزوائد: 317/4) ٭ اپنے مال و عزت کا دفاع کرتے ہوئے مر جانا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4772) ٭ سرحدی پہرے کی حالت میں موت آنا۔ (صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 4938 (1913)) ٭ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا۔ (مسند أحمد: 391/5) ٭ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2200 (949)) ٭ پیٹ کی بیماری سے، غرق ہو کر، ملبے کے نیچے دب کر، فالج کے سبب اور عورت کو حالت نفاس میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامتیں ہیں کیونکہ متعدد احادیث میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4940 (1914)، مسند أحمد: 391/5) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔
(2) اللہ تعالیٰ نے اچھے یا برے انجام کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر کسی کو پتا ہوتا کہ وہ نجات یافتہ ہے تو وہ خود پسندی کا شکار ہو کر سستی کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی کو معلوم ہوتا کہ وہ ہلاک ہونے والا ہے تو وہ مزید سرکشی میں آگے بڑھتا، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ انسان امید اور خوف کے درمیان رہے جو ایک ایمانی کیفیت ہے۔ (فتح الباري: 401/11)