تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے، ان کے ایک شاگرد شریح بن ہانی نے جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے ایک حدیث سنی ہے اگر وہ درست ہے تو پھر ہم ہلاک ہو گئے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی موت کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرا خیال درست نہیں کیونکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ لیکن جب آنکھیں پتھرا جائیں، سینے سے سانس اکھڑنے کی آواز آنے لگے، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جب ہاتھ پاؤں پھول جائیں تو اس وقت جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اس وقت اللہ تعالیٰ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6826 (2675))
(2) دراصل جب انسان پر نزع کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو نیک انسان اپنے انجام کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اور فرشتے بھی اسے خوشخبری دیتے ہیں، اس وقت اس کا دل مچلتا ہے کہ جلد از جلد نعمتیں حاصل کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کے لیے تیار کی ہیں اور جب برے آدمی کو فرشتوں کی خوفناک کیفیت سے اپنے برے انجام کا پتا چل جاتا ہے کہ وہ سزا کا مستحق ہے اور فرشتے بھی اسے خبر دیتے ہیں تو اسے مرنے سے وحشت ہوتی ہے، ایسے حالات میں وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا نہیں چاہتا کیونکہ اسے اپنا برا انجام نظر آ رہا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عبد بن حمید کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے۔ (فتح الباري: 437/11) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا ہی کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔'' (یونس: 10/7-8)