تشریح:
(1) رفیق اعلیٰ سے مراد جنتی، یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’ان حضرات کی رفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435، والنساء، 69)
(2) اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب موت و حیات کا اختیار دیا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند فرمایا اور موت کو اختیار کیا، ہمیں بھی ایسے حالات میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرنا چاہیے۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض شارحین کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتہ روح قبض کر لینے کے لیے آیا تو انہوں نے کہا: ’’کیا تو نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کو جان سے مار دے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے سے یہ پیغام دیا: ’’کیا کوئی دوست اپنے دوست سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے؟‘‘ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا: ’’اب میری روح قبض کر لو۔‘‘ (فتح الباري: 349/11)