تشریح:
اس حدیث کے پیش نظر ہر مرنے والا دو حالتوں میں سے ایک کا ضرور سامنا کرتا ہے یا وہ خود آرام پانے والا ہے یا دوسروں کو اس سے آرام ملتا ہے۔ ہر حالت میں اس پر موت کے وقت سختی بھی کی جا سکتی ہے اور اس پر نرمی کا بھی امکان ہے۔ پہلی صورت میں اسے موت کی سختیوں سے پالا پڑتا ہے۔ موت کی شدت کا تعلق انسان کی پرہیزگاری یا بدکاری سے نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ شخص اہل تقویٰ سے ہے تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر مومن اہل تقویٰ نہیں تو اس کی برائیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات پا جاتا ہے۔ موت کی سختی کے باوجود مومن کو فرشتوں کی بشارت سے اس قدر راحت ملتی ہے کہ اس کے مقابلے میں موت کی سختی کا کچھ وزن نہیں ہوتا، گویا مومن اس قسم کی سختی کو محسوس ہی نہیں کرتا۔ (فتح الباري: 444/11)