تشریح:
(1) کفار کے بچوں کا کیا حکم ہے اس بارے میں اختلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’مشرکین کی اولاد کا کیا انجام ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’وہ اپنے آباء میں سے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی: عمل کے بغیر ہی؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو بہتر علم ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4712) دوسری حدیث میں ہے بچے فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتے ہیں، خواہ وہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوں یا کافروں کے ہاں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث: (6599) سے معلوم ہوتا ہے۔ بعض علماء نے یہ تطبیق دی ہے کہ دنیا میں ان بچوں سے کفار والا معاملہ کیا جائے گا، یعنی انہیں مرنے کے بعد غسل نہیں دیا جائے گا، نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہی کیا جائے گا، آخر سانپوں کے بچے سانپ ہوتے ہیں۔ آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کافروں کے وہ بچے جو بچپن ہی میں فوت ہو جائیں وہ جنت میں جائیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے جیسا کہ انہوں نے کتاب الجنائز میں ایک عنوان قائم کیا ہے: (باب ما قيل في أولاد المشركين) ’’اولاد مشرکین کے متعلق جو کہا گیا ہے‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 92) نیز صحیح بخاری ہی میں صراحت ہے کہ مشرکین کے بچے جنتی ہیں۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7047) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چند مذاہب ذکر کیے ہیں، پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کو مذہب مختار قرار دیا ہے۔
(2) کچھ اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں کوئی حکم دے کر ان کی آزمائش کرے گا، اگر وہ اطاعت کر لیں تو اہل جنت بصورت دیگر انہیں جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ (فتح الباري: 313/3) واللہ أعلم