تشریح:
(1) پوری آیات کا ترجمہ: ’’پھر جس نے مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو یقیناً ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں۔‘‘ (اللیل: 5/92، 10)
(2) بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔ عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا کام کرے اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہونا آسان بنا دیا جاتا ہے اور اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دی جاتی ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے شخص کے لیے جہنم کا راستہ آسان اور نیکی کی راہیں بہت مشکل بنا دی جاتی ہیں، پھر اس کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر عمل کس لیے ہوا؟ آپ نے فرمایا: عمل کے بغیر تو جنت نہیں مل سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کی: اللہ کے رسول! پھر تو ہم عمل کرنے میں جان توڑ کوشش کریں گے۔ (فتح الباري: 606/11)
(3) حیرت کی بات ہے کہ جس حدیث کو سن کر آج عمل چھوڑ دینے کا عہد کیا جاتا ہے، اسی کو سن کر کل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جدوجہد کا عہد کرتے تھے۔ بات اصل یہ ہے کہ وہ حکم کے فرمانبردار تھے لیکن ہم عقل کے بندے ہیں۔ عقل بے چاری دنیا کی معمولی الجھنیں نہیں سلجھا سکتی، وہ تقدیر کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟ ہاں، جب وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہے تو پھر مسائلِ شریعت میں اس کے نزدیک کوئی الجھن، الجھن نہیں رہتی؟ پھر اس میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ جتنا اختیار اسے مل چکا ہے، اسے کام میں لانا اپنا فرض منصبی خیال کرتی ہے۔
(4) تقدیر کا ہمیں علم نہیں تو پھر عمر میں اختیار سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ بہرحال انسان کو جیسا اور جتنا اختیار ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائے۔
(5) تقدیر کے مسئلے کو ہم ایک مثال سے حل کرتے ہیں کہ ایک مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی تشخیص کر کے اپنے تجربے کے پیش نظر کسی کاغذ پر لکھ دیتا ہے کہ اس نے دوسرے دن مر جانا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن مر جاتا ہے، اب کیا وہ اس تحریر سے پابند ہو گیا ہے کہ وہ دوسرے دن ہی مرے گا، اگر ڈاکٹر نہ لکھتا تو کیا وہ مریض زندہ رہتا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگی تحریر یا مشیت یا تقدیر کی بات اسے مجبور سمجھنے کی دلیل نہیں بلکہ یہ جو کام بھی کرتا ہے اپنے عزم اور کھلے اختیار سے کرتا ہے۔ تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے مجبور محض بننے کی۔ واللہ أعلم