تشریح:
(1) اس حدیث میں واقعۂ معراج کی طرف اشارہ ہے۔ یہ ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا لیکن اس کا بہت مذاق اڑایا گیا، پھر جن کافروں نے بیت المقدس دیکھا تھا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے تمام پردے دور کر دیے اور آپ نے انہیں تمام سوالات کا جواب دیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کسی حسبی معجزے کے طلب گار کافر ایمان لے آتے لیکن کاتب ازلی نے ان کے لیے کفر ہی مقدر کیا تھا، اس لیے وہ پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔ (2) واقعۂ معراج کی طرح تھوہر کے درخت کا آگ میں پیدا ہونا بھی ان کے لیے فتنہ بن گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آگ تو لکڑی کو جلا دیتی ہے، اس لیے درخت کا آگ میں پیدا ہونا کیسے ممکن ہے۔ اس درخت کو ملعون اس لیے کہا گیا کہ اس میں غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ اس کے کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت و تکلیف میں مزید اضافے کا باعث ہوں گے۔
(3) واقعۂ معراج کے فتنہ بننے سے یہ بات ازخود ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے بھی عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ دراصل کفار مکہ نے واقعۂ معراج اور زقوم کی پیدائش کو عقل کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جو دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ اسی طرح تقدیر کے معاملات کو عقل سے پرکھنا بھی گمراہی اور ضلالت ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی تقدیر میں یہ بات لکھ دی تھی کہ انہوں نے واقعۂ معراج کو خواہ مخواہ جھٹلانا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ واللہ أعلم