تشریح:
(1) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے نصف مال دینے کی اجازت مانگی تو بھی آپ نے انکار کر دیا۔ آخر میں ایک تہائی مال دینے کے متعلق کہا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ روک لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی تمام مال صدقہ کر دیا۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3321) اس تفصیل کی بنا پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے مریض کو شفا ملنے پر میرا تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال دینے کی اجازت ہے۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا موقف بیان کیا ہے کہ تمام مال صدقہ کرنا انسان کے اپنے حالات پر موقوف ہے، اگر مال دار صابر و شاکر ہے تو اسے تمام مال صدقہ کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے اور جیسا کہ انصار کے ایثار کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ اگر وہ غریب ہے تو سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بعد انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جائے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 699/11)