تشریح:
(1) اس حدیث میں جاہلیت سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے کا زمانہ ہے کیونکہ ہر شخص کی جاہلیت اس کے اسلام کے اعتبار سے ہے۔ بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا زمانۂ جاہلیت مراد نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (من نذر وهو مشرك ثم اسلم) ’’جس نے بحالت شرک نذر مانی پھر مسلمان ہو گیا۔‘‘ یہ عنوان مقصد کے ادا کرنے میں زیادہ واضح ہے۔ غزوۂ حنین سے واپس ہوتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال کیا تھا جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4320)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانۂ جاہلیت کی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے۔ زمانۂ کفروشرک نذر پوری کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ بہرحال نذر طاعت کا پورا کرنا ضروری ہے، خواہ وہ زمانۂ کفروشرک ہی میں کیوں نہ مانی گئی ہو۔
(3) واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ حنین میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی تقسیم کے بعد مسجد حرام میں اعتکاف بیٹھے تھے جیسا کہ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري: 709/11)