تشریح:
(1) ان احادیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کا قطعاً یہ مقصود نہیں کہ مشاجرات صحابہ کے درمیان کوئی محاکمہ یا فیصلہ کن کردار ادا کریں کیونکہ ان مسائل کا کتاب الفرائض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ہمارے رجحان کے مطابق ان احادیث کو حسب ذیل دو مقاصد کے لیے ذکر کیا گیا ہے: ٭ حضرات انبیاء علیہم السلام بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ایک قومی صدقہ ہے، اس میں ضابطۂ وراثت جاری نہیں ہو گا۔ اگر ان کی طرف کسی مقام پر لفظ وراثت منسوب ہے تو اس سے علمی اور دینی ورثہ ہے جس کے حق دار تمام اہل اسلام ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے وارث ہوئے۔ اس سے مراد وراثتِ نبوت اور وراثتِ علم و حکمت ہے، مالی وراثت قطعاً مقصود نہیں۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی تھی: ’’اے اللہ! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔‘‘ اس سے بھی علم و حکمت کی وراثت مراد ہے۔ ٭ جو مال وقف ہوتا ہے وہ بھی ضابطۂ وراثت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ جس مال میں ضابطۂ میراث جاری ہوتا ہے اس کا ذاتی ملکیت ہونا ضروری ہے۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کا مال وقف ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہم انبیاء کی جماعت کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم ترکہ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائي، الفرائض، حدیث: 6275) معلوم ہوا کہ وقف مال میں ضابطۂ وراثت جاری نہیں ہوتا۔
(2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ دو چیزیں ضابطۂ میراث سے خارج ہیں: ان میں ایک حضراتِ انبیاء علیہم السلام کا ترکہ ہے اور دوسری چیز وقف مال ہے۔ یہ دونوں چیزیں ضابطۂ میراث سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ أعلم۔ باقی رہا فدک اور خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مملوکات کا معاملہ! تو اس کے متعلق آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ اور اس کی شرعی حیثیت کے متعلق ہم آئندہ کسی موقع پر بحث کریں گے۔ إن شاءاللہ تعالیٰ