تشریح:
(1) ایک رویت میں ہے کہ اب مدد، دوستی اور خیر خواہی باقی ہے ترکے سے وراثت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وصیت کا حکم باقی ہے۔ (صحیح البخاري، الکفالة،حدیث :2292)
(2) ذوی الارحام کی وراثت کے متعلق دو مذہب ہیں: ٭انھیں وراثت سے حصہ نہ دیا جائے بلکہ اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے۔ ٭جب اصحاب الفروض اور عصبات نہ ہوں تو میت کا ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کیا جائے۔ عقلی اور نقلی اعتبار سے دوسرا مذہب راجح اور عمل کے قابل ہے، بالخصوص جب بیت المال کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، اب چاروں مذاہب اس پر متفق ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’کتاب اللہ میں رشتے دار ایک دوسرے کے(وراثت میں) زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ (الأنفال8: 75) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ماموں وارث ہوگا جس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الفرائض، حدیث:2899) عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ میت کا ذوی الارحام کے ساتھ خونی اور اسلامی رشتہ ہے اور بیت المال کے ساتھ صرف اسلامی تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ دو تعلق رکھنے والا، ایک تعلق رکھنے والے سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
(3) ذوی الارحام کی وراثت کی دو شرطیں ہیں: ٭ کوئی صاحب فرض موجود نہ ہو۔ ٭کوئی عصبہ وارث موجود نہ ہو۔ واضح رہے کہ ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں: ٭ اصول المیت: نانا وغیرہ۔ ٭ فروع المیت: بیٹیوں کی اولاد، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ۔ ٭فروع اب المیت: بھائیوں کی بیٹیاں بھتیجیاں وغیرہ۔ ٭ فروع جد المیت: چچا مادری اور چچا حقیقی کی بیٹیاں وغیرہ۔
(4) ذوی الارحام میں ترکہ تقسیم کرنے کے متعلق علماء کے تین موقف حسب ذیل ہیں: ٭اصل رحم: ان کے نزدیک تمام ذوی الارحام میں ترکہ برابر تقسیم کیا جائے۔ مذکر مؤنث، قریب وبعید اور قوی وضعیف میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ ٭ اصل قرابت: ان کے نزدیک ذوی الارحام میں پہلے قرب کا درجہ پھر قوت وضعف کا اعتبار اور مذکرو مؤنث میں عصبات کی طرح فرق کیا جائے گا۔٭ اہل تنزیل: ان کے نزدیک ذوی الارحام کو ان اصحاب الفرائض یا عصبات کی جگہ اتارا جائے گا جن کی وجہ سے یہ میت کی طرف منسوب ہیں۔ جمہور علماء نے اہل تنزیل کے طریقے کو ترجیح دی ہے جس کی تفصیل تفصیلی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔