تشریح:
(1) جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ (فتح الباري:172/12) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔ واللہ أعلم