تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث میں دو واقعات سے ثابت کیا ہے کہ محض آثارو قرائن سے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ حد جاری کرنے کے لیے اقرار یا دو ٹوک ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں ایک عورت کا ذکر ہے جس کے اسلام لانے کے بعد بھی اس کی بدکرداری کا چرچہ زبان زدخاص وعام تھا لیکن اس کے شواہد موجود نہیں تھے اور نہ اس کا اقررار ہی سامنے آیا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری نہیں کی۔ اسی طرح وہ عورت جس کے متعلق اس کے خاوند نے شکوک وشبہات کا اظہار کیا، پھر بچے کی پیدائش کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ خاوند اپنے دعوے میں سچا تھا لیکن اس پر کوئی گواہ نہیں تھے اور نہ عورت نے اقرار ہی کیا، اس لیے اس پر بھی حد جاری نہ کی گئی۔ واللہ أعلم