تشریح:
حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو منیٰ میں عَقَبَہ کی رات ہوئی تھی، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت کے متعلق تھی، خواہ ہم پر کیسے حالات ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے پس وپیش نہ کریں۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7199) اور مذکورہ بیعت فتح مکہ کے دن ہوئی جو پہلی بیعت سے عرصۂ دراز بعد عمل میں آئی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے حسب ذیل آیت کی تلاوت کی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4894) اور یہ آیت صلح حدیبیہ کے دنوں میں نازل ہوئی تھی۔ (فتح الباري:245/12) اس آیت کے مطابق آدمیوں سے بیعت لی گئی تھی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل ناحق نہ کرنے پر اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قتل ناحق کی قباحت اور خرابی بیان کرنا مقصود ہے۔