تشریح:
(1) ایک دوسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ ربیع کے رشتے داروں نے اس سے معافی مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو انھوں نے اسے بھی رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے علاوہ کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر اس کے بھائی انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میری بہن ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے انس! اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اتنے میں وہ لوگ دیت لینے پر رضامند ہو گئے اور انھوں نے معافی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4500)
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اس سے آپ نے درج ذیل آیات کی طرف اشارہ فرمایا: ’’زخموں میں بھی قصاص ہے۔‘‘ (المائدة:5: 45) ’’سزا دو تم جس قدر تمھیں سزا دی گئی ہو۔‘‘ (النحل16: 126) بلکہ قرآن میں واضح نص ہے کہ دانت کے بدلے دانت ہے۔
(3) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قصاص کا فیصلہ سن کر جو کچھ کہا وہ اس فیصلے کو رد کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین کے پیش نظر اس کے وقوع کی نفی کی، چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق کام ہوا۔ (فتح الباري:280/12) واضح رہے کہ حدیث میں توڑنے سے مراد اکھاڑنا نہیں، چنانچہ امام ابوداودر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دانت میں قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: اتنی مقدار میں ریتی سے رگڑ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4595)