قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ (بَابُ مَا جَاءَ فِي المُتَأَوِّلِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

6939. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ فُلَانٍ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ يَعْنِي عَلِيًّا قَالَ مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ قَالَ شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ قَالَ مَا هُوَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقَ لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمْ الْجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ خَاخٍ أَصَحُّ وَلَكِنْ كَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ خَاخٍ

مترجم:

6939.

سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبدالرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو! ”وہ کیا ہے؟“ ابو عبدالرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔ ۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جا رہی تھی۔ حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا: تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط کی تلاشی لی لیکن ہمیں اس میں کوئی خط نہ ملا۔ میرے ساتھی نے کہا: اس کے پاس تو کوئی خط معلوم نہیں ہوتا۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں:) میں نے کہا: ہمیں یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی: پھر حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے قسم اٹھائی کہ اس زات کی قسم جس کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے ! خط نکال دے بصورت دیگر میں تجھے ضرور بالضرور ننگا کر دوں گا۔ پھر وہ عورت اپنی چادر کے بند کی طرف جھکی۔ اس نے اپنی ایک چادر اپنی کمر پر باندھ رکھی تھی۔ اس نے وہاں سے خط نکالا، چنانچہ وہ لوگ خط کے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت حاضر ہوئے،حضرت عمر ؓ نے یہ حالات دیکھ کر عرض کی: اللہ کے رسول! یقیناً اس نے اللہ سے، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں میں اسکی گردن اڑاؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! جو کچھ تو نے کیا ہے، اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ حاطب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر ایک احسان ہوجائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور اپنے بال بچوں کو محفوظ کرلوں۔ دراصل بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں سے ایسے لوگ نہ ہوں جن کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا، البتہ میرا ایسا عزیز وہاں کوئی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”حاطب نے سچ کہا ہے۔ اسے بھلائی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے دوبارہ عرض کی: اللہ کے رسول! اس نے اللہ سے، اس کے رسول ﷺ اور اہل ایمان سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن ماروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ اہل بدر سے نہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی ان کے اعمال سے واقف تھا اس نے کے متعلق فرمایا ہے: تم جو چاہو کرو، میں نے تمہارے لیے جنت لکھ دی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں۔ ابو عبداللہ (امام بخاریؓ) فرماتے ہیں: حدیث میں خاخ ہی زیادہ صحیح ہے لیکن ابو عوانہ نے حاج ہی کہا ہے۔ اور لفظ حاج تصحیف ہے، یہ ایک جگہ کا نام ہے، راؤی حدیث ہشیم نے ”خاخ“ ہی بیان کیا ہے۔