تشریح:
(1) حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی،اس لیے وہ عثمانی کہلاتے تھے اور حضرت ابن عطیہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی وجہ سے علوی کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:3081) اس لیے ابو عبدالرحمٰن نے ابن عطیہ سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس قدر خون ریزی پر کیوں جرأت کرتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوں، اس لیے اجتہادی معاملات میں اگر کوئی خطا ہو گئی تو وہ قیامت کے دن معاف ہو جائے گی۔ حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ غلط فہمی ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں انتہائی محتاط تھے، پھر اہل بدر کی مغفرت کا تعلق آخرت سے ہے لیکن دنیا میں اگر حد کا مرتکب ہوا تو اس پر حد ضرور قائم ہو گی جیسا کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ پر حد قذف لگائی گئی، حالانکہ وہ اہل بدر میں سے تھے۔
(2) اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی اہل بدر میں سے گناہ، مثلاً: کسی پر تہمت لگانا، قتل کرنا وغیرہ کا مرتکب ہوا تو اس پر حد قصاص واجب ہے۔
(3) اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو منافق قرار دیا اور خائن کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن ردعمل کے طور پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق نہیں کہا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کیونکہ انھوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ایک اہم راز فاش کیا تھا۔ یہ ایک فوجداری جرم تھا اور ایسا کرنا کفار سے دوستی رکھنے کے مترادف تھا۔ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک معقول وجہ سے انھیں منافق کہا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤاخذہ نہیں کیا بلکہ ان کی فکری غلطی کی اصلاح فرمائی اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو لوگ غزوۂ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ نےانھیں معاف کر دیا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت اس لیے مانگی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ جو انسان اپنے سربراہ یا اپنی قوم کا راز دشمنوں کے سامنے فاش کرے، اس کی سزا موت ہے۔ ان کے سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ وہ اس جرم کی سزا سے بری ہو جائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے سب قصور معاف کر دیے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے اور مارے خوشی کے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ واللہ أعلم