تشریح:
1۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ اہل مشرق جو مضر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان دنوں مسلمان نہ تھے بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے مخالف تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان حدیث 804)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دباؤ کی وجہ سے کفر اختیار کرنا حقیقی کفر نہیں اگرایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے دعا نہ فرماتے اور انھیں مومن قرارنہ دیتے،نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جس پر جبر کیا جائے وہ کمزور ہی ہوتا ہے۔
3۔ واضح رہے کہ کمزور مسلمان ان دنوں مکہ مکرمہ میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے اور ان کے جبر کرنے سے وہ کفر کے کاموں میں بھی شریک رہتے ہوں گے لیکن اکراہ کی وجہ سے انھوں نے اسے اختیار کیا اور ایسی حالت میں مجبوری اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 394/12)