قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِكْرَاهِ (بَابُ وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ: {إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً} [آل عمران: 28]: «وَهِيَ تَقِيَّةٌ». وَقَالَ: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ المَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ} [النساء: 97]- إِلَى قَوْلِهِ - {عَفُوًّا غَفُورًا} [النساء: 43] وَقَالَ: {وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ القَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا} [النساء: 75]: «فَعَذَرَ اللَّهُ المُسْتَضْعَفِينَ الَّذِينَ لاَ يَمْتَنِعُونَ مِنْ تَرْكِ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ، وَالمُكْرَهُ لاَ يَكُونُ إِلَّا مُسْتَضْعَفًا، غَيْرَ مُمْتَنِعٍ مِنْ فِعْلِ مَا أُمِرَ بِهِ» وَقَالَ الحَسَنُ: «التَّقِيَّةُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فِيمَنْ يُكْرِهُهُ اللُّصُوصُ فَيُطَلِّقُ: «لَيْسَ بِشَيْءٍ» وَبِهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَالشَّعْبِيُّ، وَالحَسَنُ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ»

6940. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَالْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَابْعَثْ عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی ”یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔“ اور سورۃ نساء میں فرمایا ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے۔“ آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔اس حدیث سے بھی امام بخاری نے یہ دلیل لی کہ جس شخص سے زبردستی طلاق لی جائےتو طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نیت طلاق کی نہ تھی معلوم ہوا کہ زبردستی کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے رافضیوں جیسا تقیہ بطور شعار جائز نہیں ہے۔

6940.

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نمار میں (ان الفاظ کے ساتھ) دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید‬ ؓ ک‬و نجات دے۔ اے اللہ! تو بے بس اور مجبور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر قبیلے پر اپنی گرفت سخت کر اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف ؑ کے زمانے میں آیا تھا۔“