تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کی قباحت اورخرابی بیان کرنے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے ہیں: پہلی صورت کنواری لڑکی کے متعلق تھی، دوسری شوہردیدہ کے بارے میں اور تیسری صورت میں گواہی کے بعد اعتراف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سب صورتوں میں ایک ہی موقف کو بار بار بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایسا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل مواخذہ ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’بعض اوقات تم میں سے کوئی اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہوتا ہے، اس طرح میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسے غیر کا حق مل رہا ہے تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں نے اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6967)
2۔اس واضح اور دو ٹوک حدیث کے باوجود بعض لوگوں کواس بات پر اصرار ہے کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہو جاتا ہے اور یہ حضرات اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا محل نزاع کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں کیونکہ یہ حدیث اموال کے بارے میں ہے، عقود ومعاملات کے بارے میں نہیں ہے، حالانکہ یہ حدیث عام ہے خواہ حکم حاکم مال سے متعلق ہو یا کسی دوسرے حق کے بارے میں ہو، وہ حق خواہ مالِ عقود سے متعلق ہویا عقد نکاح سے تعلق رکھتا ہو۔ اموال وعقود کی تفریق دست ہنرشناس کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن حدیث کے الفاظ اس تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔ ان حضرات کا یہ کہنا کہ یہ حدیث جھوٹی گواہی کے متعلق نہیں بلکہ چرب لسانی اور زبان درازی کے بارے میں ہے۔
3۔ہمارے رحجان کے مطابق اس طرح کی موشگافی حدیث سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ شرعاً اس طرح کی سخن بازی کی اجازت ہی ہے۔ واللہ أعلم۔