تشریح:
1۔ ایک روایت میں حضرت خرشہ بن حر کہتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ کی مسجد میں ایک گروہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس میں ایک خوبصورت شکل و صورت والے شیخ بہترین انداز میں احادیث بیان کر رہے تھے۔ جب وہ اپنا وعظ ختم کر کے چلے گئے تو لوگوں نے ان کے متعلق کہا جس نے کسی جنتی کو دیکھنا ہو وہ انھیں دیکھ لے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6383(2484) ان دو مختلف روایات میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مجلس میں وعظ کر رہے تھے جیسا کہ خرشہ کی روایت میں ہے پھر جاتے ہوئے ایک گروہ کے پاس سے گزرے جس میں سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جیسا کہ قیس بن عباد کی روایت میں ہے۔ پھر خرشہ اور قیس دونوں ان کے گھر گئے اور ان سے سوال کیا اور انھوں نے انھیں جواب دیا۔(فتح الباري:497/12)
2۔ عروہ ثقی کے متعلق قرآن کریم میں ہے کہ جو شخص طاغوت سے کفر کرے۔ اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا اس خواب میں اشارہ تھا کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام پر فوت ہوں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا تھا۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور تعجب فرمایا اور تواضع و انکسار کرتے ہوئے لوگوں کی بات کا انکار کیا تاکہ لوگ ان کی طرف انگلیوں سے اشارے نہ کریں جو تکبر و غرور کا باعث ہو سکتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنتی ہونے کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ ان کا مقصد تھا کہ ایسی باتوں کو جزم و وثوق سے بیان نہیں کرنا چاہیے متواضع لوگوں کی یہی شان ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔