قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّعْبِيرِ (بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الرُّؤْيَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ إِذَا لَمْ يُصِبْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7046. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ السَّمْنَ وَالْعَسَلَ فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ وَإِذَا سَبَبٌ وَاصِلٌ مِنْ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ ثُمَّ وُصِلَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي فَأَعْبُرَهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْبُرْهَا قَالَ أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ وَأَمَّا الَّذِي يَنْطُفُ مِنْ الْعَسَلِ وَالسَّمْنِ فَالْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ تَنْطُفُ فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنْ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُهُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ ثُمَّ يُوَصَّلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا قَالَ فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي بِالَّذِي أَخْطَأْتُ قَالَ لَا تُقْسِمْ

مترجم:

7046. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ بادل کے ٹکڑے سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے۔ میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ کچھ زیادہ اور کچھ کم۔ پھر اچانک ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین کی طرف لٹک رہی ہے۔ میں نے آپ کو دیکھا آپ نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے۔ پھر ایک اور صاحب آئے وہ بھی رسی کوپکڑا تو رسی ٹوٹ گئی اور پھر جڑ گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے اجازت دیں میں اسکی تعبیر کروں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، آپ اس کی تعبیر کریں۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا:بادل سے مراد دین اسلام ہے۔ جو گھی اور شہد ٹپک رہا تھا وہ قرآن کریم کی حلاوت اور مٹھاس ہے کچھ لوگ اسے زیادہ لینے والے ہیں اور کچھ لوگوں کی قسمت میں تھوڑا حصہ ہے اور آسمان سے زمین تک لٹکنے والی رسی سے مراد وہ سچا طریق حق ہے جس پر آپ گامزن ہیں اور آپ سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسی کے ساتھ آپ کو بام عروج تک لے جائے گا۔ پھر آپ کے بعد اسے ایک اور آدمی پکڑے گا۔ پھر اس کے بعد دوسرا آدمی پکڑے گا، پر اس کو جب تیسرا آدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر جڑ جائے گی تو وہ بھی چڑھ جائے گا۔ اللہ کے رسول! میرے ماں باپ پر قربان ہوں، مجھے اس تعبیر کے متعلق بتائیں صحیح ہے یا غلط ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: کچھ تعبیر تو صحیح ہے اور کچھ غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی۔ : (اللہ کے رسول!) آپ کو اللہ کی قسم ہے آپ میری غلطی کو ضرور ظاہر کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم قسم نہ دو۔“