تشریح:
(1) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام، رکوع اور سجود تقریبا برابر ہوتے تھے، اس لیے نماز میں اعتدال ضروری ہے۔ لیکن اگر نماز شروع کرنے کے بعد کوئی عارضہ پیش آجائے، مثلاً: بچہ رونے لگے یا بارش ہونے لگے تو تخفیف کرنے کی شرعا اجازت ہے یا شروع ہی سے کسی عارضے کی وجہ سے ہلکی نماز پڑھانے کا ارادہ کرے تو بھی جائز ہے۔ اختصار مذکور کی طرح امام کو تطویل کا بھی اختیار ہے، تاکہ لوگ رکعت پالیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بعد میں آنے والے کو امام اپنی دوستی یا رفاقت کی وجہ سے یہ رعایت دے۔ اس کے علاوہ بعض فقہاء نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ بعد میں شامل ہونے والوں کو تطویل کی رعایت دینا اس صورت میں ہے کہ پہلے سے شرکائے نماز کو اس کی تطویل سے تکلیف نہ ہو کیونکہ ان کا حق بعد میں آنے والوں سے زیادہ ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ تطویل کی رعایت دنیادار اور امراء طبقے کے لیے خاص نہ ہو۔ اگر ایسا کیا گیا تو بعض فقہاء نے اسے شرک تک قرار دیا ہے، کیونکہ اس طرح عبادت میں زیادتی غیراللہ کے لیے ہوگی جبکہ عبادت کا کچھ حصہ بھی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں، تاہم نے جن حضرات نے اسے شرک قرار دیا ہے، اس سے مراد شرکِ اصغر، یعنی ریاکاری ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:263/2) والله أعلم۔
(2) حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے محل تخفیف کی بھی نشاندہی کی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ دوران قیام چھوٹی سورت پڑھ لیتے۔ بعض روایات میں اس کی مقدار بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ پہلی رکعت میں لمبی سورت تلاوت فرماتے، پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر دوسری رکعت میں تین آیات پڑھ کر رکوع میں چلے جاتے۔ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، تاہم تائید کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري:262/2)
(3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں چند ایک متابعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بشر بن بکیر کی متابعت خود امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں موصولا بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:868) ابن مبارک کی روایت کو امام نسائی نے بیان کیا ہے جبکہ بقیہ بن ولید کی متابعت کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔ (فتح الباري:262/2)