تشریح:
1۔اس حدیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ جنگ جمل یا جنگ صفین میں شامل تمام لوگ فریقین کے مخالف یا طرفدار نہیں تھے، یقیناً کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں مجبوراً اس جنگ میں دھکیل دیا گیا، اگر وہ جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہوں تو قیامت کے دن ان کے ساتھ ان کی نیت کے مطابق سلوک کیا جائےگا، مثلاً: جب کسی گھر کی چھت گرتی ہے یا زلزلہ آتا ہے تو صرف بُرے لوگ ہی اس کی لپیٹ میں نہیں آتے بلکہ نیک لوگ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے: چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
2۔بہرحال جب فتنوں کا دور ہوتا ہے تو اس کی لپیٹ میں سب لوگ آ جاتے ہیں، اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداہنت اور سستی کرنے اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداہنت اور سستی کرنے والا، انھیں دیکھ کر خوش ہونے والا اور فتنوں کو بھڑکانے والا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی کے طلبگار ہیں۔ (فتح الباري: 77/13)