تشریح:
1۔واقعہ حرہ کا پس منظر بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ کر حکومت وقت سے بغاوت کر دی تھی، اس لیے ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کے متعلق کچھ گزارشات پیش کریں: الف۔ حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کا وہ لشکر جو قیصر کے دارالحکومت پر پہلے حملہ آور ہوگا وہ اللہ کے ہاں مغفرت یافتہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر۔ حدیث: 2924) تاریخی طور پریہ بات ثابت ہے کہ 49 ہجری میں رومی پایہ سلطنت قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ چڑھائی کرنے والا مسلمانوں کا وہ لشکر تھا جس کا سربراہ یزید بن معاویہ تھا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1186) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: قسطنطنیہ پر پہلی چڑھائی کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ چونکہ معین تعداد کو لشکر کہا جاتا ہے، اس لیے اس فوج کا ہر ہرفرد بشارت مغفرت میں شریک ہے۔‘‘ (منھاج السنة: 252/2) اس لشکرمیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، میزبان رسول حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر اساطین صحابہ شریک تھے۔
2۔جب ایک بدبخت عبدالرحمٰن بن ملجم کے ہاتھوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیے گئے تو 41 ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کی شرط پر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی۔ تاریخ میں یہ سال "عام الجماعة" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساڑھے چار سالہ دورحکومت، اندرونی خلفشار اور باہمی کشت وخون کی نذر ہوا تھا اس دور میں نہ تو کفار سے جہاد ہوا اور نہ اسلامی فتوحات اور خدمات ہی میں اضافہ ہوا بلکہ دو مرتبہ ہلاکت خیز خانہ جنگی کی صورت میں خون مسلم کی ارزانی ہوئی، اس لیے پیش بندی کے طور پر 50 ہجری میں کوفے کے گورنر، تجربہ کار اور عمررسیدہ صحابی جلیل سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دمشق آ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ تجویز دی کہ آپ اپنی زندگی میں ہی کسی شخص کو ولی عہد مقرر کر دیں تاکہ حصول اقتدار کی خاطر ممکنہ رسہ کشی کا سد باب ہوسکے اور انتشار پسند عناصر کو شرانگیزی کا بھی موقع نہ مل سکے۔ جانشین کے لیے انھوں نے آپ کے بیٹے یزید کا نام پیش کیا۔ لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی رائے سے فوری طور پر اتفاق نہ کیا بلکہ انھوں نے تمام صوبوں کے نمائندہ اجلاس پر موقوف رکھا چنانچہ اسی سال دمشق میں اجلاس ہوا جس میں اسلامی مملکت کے تمام معززین نمائندگان نے شرکت کی، اس میں یزید کی ولی عہدی پرغور ہوا، بالآخر اس تحریک کو اکثریت کی حمایت حاصل رہی لیکن کسی طرح آپ کو معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کے کچھ لوگ یزید کی ولی عہدی سے خوش نہیں ہیں، اس لیے آپ نے گورنر مدینہ مروان بن حکم کو خط لکھا کہ وہ اکابرمدینہ کو جمع کریں اور ان کی رائے معلوم کر کے ہمیں مطلع کریں، چنانچہ مروان بن حکم نے مدینہ طیبہ میں ایک اجلاس کیا جس میں اکابر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ نے شرکت کی بلکہ اس اجلاس میں اس اہم قومی معاملے میں مشاورت کے لیے امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی تشریف فرما تھیں۔ اس اجلاس میں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی بھی قابل ذکر شخصیت نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی تفصیل صحیح البخاری حدیث 4827 میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولی عہدی کا فیصلہ ہوگیا اور تمام علاقہ کے لوگوں نے ان کی ولی عہدی کے متعلق بیعت کی۔ (البدایة والنھایة: 79/7) ولی عہدی کی بیعت مکمل ہونے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکی: ’’اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کے فضل وکمال کی وجہ سے اپنا ولی عہد بنایا ہے تو اسے بلند مقام پر پہنچا جس کی مجھے اس سے اُمید ہے اور اگر اس بات پر مجھے اس محبت نے آمادہ کیا جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے اور وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب تک پہنچنے سے پہلے ہی موت دے دے۔‘‘ (تاریخ الإسلام للذھبي: 267/2)
3۔امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنانے کے دس سال بعد تک زندہ رہے، آخر 22 رجب 60 ہجری بروز جمعرات دمشق میں فوت ہوئے اور ان کی نماز جنازہ یزید نے پڑھائی۔ دس سالہ ولی عہدی کے دوران میں آپ تین سال متواتر امارت حج کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی زیر امارت حج کے دوران میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ نے حج کیا اور آپ کی امامت ہی میں نماز پنجگانہ ادا کیں۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یزید بن معاویہ نے 51۔52۔53۔ ہجری میں لوگوں کو حج کرایا۔ (البدایة والنھایة: 229/8) امارت حج کے علاوہ اس دوران میں انھوں نے متعدد ملکی وملی خدمات سرانجام دیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد باضابطہ طورپر نئے سرے سے پوری اسلامی ریاست میں آپ کی بیعت امارت ہوئی جس کا آغاز وفاقی دارالحکومت شام کے مرکزی شہر دمشق میں ایک اجتماع عام سے ہوا، پھر ہر علاقے میں تعینات گورنروں کے ہاتھ ان کے لیے بیعت امارت کا انعقاد کیا گیا۔ تاریخ میں صرف سعد بن حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ملتے ہیں جنھوں نےاس بیعت امارت میں شمولیت نہیں کی۔ ان کے علاوہ کبار صحابہ نے بیعت امارت میں عملاً حصہ لیا، البتہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاست سے قطعاً کنارہ کش تھے حتی کہ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا اعلان کیا تو ان سے بھی بیعت نہیں کی۔ان کے علاوہ چھوٹے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دوچار دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔
4۔یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری ایام میں واقعہ حرہ پیش آیا۔ اس کا پس منظر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دمشق میں یزید کے پاس گئے تاکہ انھیں ان کے کردار کا پتاچلے۔ وہاں ان کی خوب مہمان نوازی ہوئی، خاطر مدارات کی گئی۔ واپس آکر انھوں نے بتایا کہ یزید شراب نوشی اورزناکاری میں مبتلا ہے اور مدینے کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملائے بغیر علم بغاوت بلند کر دیا اور امیر مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ بیعت توڑنے والوں میں عبداللہ بن حنظلہ اور عبداللہ بن مطیع پیش پیش تھے، چنانچہ عبداللہ بن مطیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت محمد بن علی بن ابی طالب جو ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں کے پاس گئے اور ان سے بیعت توڑ دینے کی درخواست کی لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ابن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتا ہے، نماز نہیں پڑھتا اور کتاب اللہ کے احکام کی پروانہیں کرتا۔ محمد بن علی نے جواب دیا: میں یزید سے خود ملا ہوں، ان کے ساتھ رہا ہوں، میں نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی بلکہ میں نے انھیں ہمیشہ نماز کا پابند، خیر کا متلاشی، فقہ کا مسائل اور سنت کا متبع پایا ہے۔ (البدایة والنھایة: 233/8) بہرحال بیعت توڑنے والوں نے مدینہ طیبہ کے تین طرف خندق کھودی اور چوتھی طرف انصار کے اسی محلے کو حصار سمجھ لیا جو ان کے ہمنوا نہیں تھا۔ جب یزید کو اس کی اطلاع ملی توانھوں نے مسلم بن عقبہ کی کمان سے ایک فوج بھیجی اور انھیں حکم دیا کہ پہلے ان لوگوں پر امان پیش کریں اگر نہ مانیں تو ان سے جنگ کریں، چنانچہ انھوں نے ان کی ہدایات کے مطابق عمل کیا۔ جب اہل مدینہ نے انکار کیا تو انصار کے بڑے گھرانے بنواشہل کے تعاون سے فوج شہر میں داخل ہوئی اور گنتی کے چند گھنٹوں میں شہر پر قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد مؤرخین نے دیومالائی انداز میں اس واقعے کی تفصیلات خود مرتب کی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
5۔بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق ایک اسلامی سربراہ کی بیعت توڑنے کے جو شرعی تقاضے ہیں اہل مدینہ نے انھیں ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مراد شاید ان لوگوں کی طرف سے اشارہ ہے جو دمشق میں سربراہ حکومت کے پاس گئے اور وہاں سے واپس آکر خلاف واقعہ باتیں بیان کیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت توڑنے کے متعلق جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے بغاوت کے لیے جس چیز کو پیش کیا وہ شریعت کے مطابق نہ تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ حکومت میں جب حرہ کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے تو انھوں نے کہا: ابوعبدالرحمان کے لیے مسند لاؤ۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ حدیث بیان کرنے آیا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اطاعت کا عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس کوئی حجت اوردلیل نہیں ہوگی اور اگرایسی حالت میں وہ مرگیا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4793(1851) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس امام کی حکمرانی پر امت کا اجماع ہو اس کی بیعت لازم اور اس کے خلاف خروج حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کو معاف فرمائے اور قیامت کے دن ہم سب کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔