تشریح:
1۔علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ آگ کا ظہور ہو چکا ہے۔ 654 ہجری میں سرزمین حجاز سے آگ نکلی تھی جس کا آغاز ایک زلزلے سے ہوا تھا۔ اس آگ کے شعلے بلند ہوئے اور پھر وہ خود بخود ختم ہوگئی۔
2۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہی آگ ہے جو حشر کے لیے لوگوں کو ہانک لے جائے گی لیکن حدیث سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ حشر کی آگ ہے بلکہ اس سے مراد قیامت کی ایک نشانی ہے اور جو آگ لوگوں کو ہانک کر لےجائے گی، اس کے فوراً بعد قیامت آجائے گی جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’لوگوں کوآگ ہانک کرلے جائے گی اور وہ دن رات ان کے ساتھ رہے گی۔‘‘ (صحیح البخاري الرقاق، حدیث: 6522) بہرحال یہ دو قسم کی آگ ہے :ایک تو قیامت کی نشانی ہے اور دوسری قیامت کا آغاز ہوگا۔ واللہ أعلم۔