قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ الشَّهَادَةِ تَكُونُ عِنْدَ الحَاكِمِ، فِي وِلاَيَتِهِ القَضَاءَ أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ، لِلْخَصْمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ شُرَيْحٌ القَاضِي، وَسَأَلَهُ إِنْسَانٌ الشَّهَادَةَ، فَقَالَ: «ائْتِ الأَمِيرَ حَتَّى أَشْهَدَ لَكَ» وَقَالَ عِكْرِمَةُ: قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا عَلَى حَدٍّ، زِنًا أَوْ سَرِقَةٍ، وَأَنْتَ أَمِيرٌ؟ فَقَالَ: شَهَادَتُكَ شَهَادَةُ رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، قَالَ: صَدَقْتَ قَالَ عُمَرُ: «لَوْلاَ أَنْ يَقُولَ النَّاسُ زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، لَكَتَبْتُ آيَةَ الرَّجْمِ بِيَدِي» وَأَقَرَّ مَاعِزٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِالزِّنَا أَرْبَعًا، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ، وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْهَدَ مَنْ حَضَرَهُ وَقَالَ حَمَّادٌ: «إِذَا أَقَرَّ مَرَّةً عِنْدَ الحَاكِمِ رُجِمَ» وَقَالَ الحَكَمُ «أَرْبَعًا»

7170. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي قَالَ فَأَرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ اللَّيْثِ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ وَقَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ الْحَاكِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِكَ فِي وِلَايَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّى يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِرَاقِ مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ قَضَى بِهِ وَمَا كَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ بَلْ يَقْضِي بِهِ لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنْ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الْحَقِّ فَعِلْمُهُ أَكْثَرُ مِنْ الشَّهَادَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الْأَمْوَالِ وَلَا يَقْضِي فِي غَيْرِهَا وَقَالَ الْقَاسِمُ لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَكْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ وَلَكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ الْمُسْلِمِينَ وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ وَقَدْ كَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ فَقَالَ إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور شریح( مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی ( نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جاکر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگادے گا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخری تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہوگی یا نہیں۔ عبدالرحمن نے کہا بے شک سچ کہتے ہو۔ عمر ؓنے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھادیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے آنحضرتﷺ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ آنحضرتﷺ نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان( استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کرلے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا۔ تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، باب کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا قبل ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے یعنی اپنی شہادت اور واقفیت کی بنا پر، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور امام بخاری  کے نزدیک راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو خود اپنے علم یا گواہی پر فیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے پاس رجوع ہونا چاہئے اور اس قاضی کو مثل دوسرے گواہوں کے وہاں گواہی دینا چاہئے۔

7170.

سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: ”جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔“ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے وہ ہتھیار مجھے دے دیے، پھر میں نے ان کے عوض ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا (امام بخاری ؓ کہتے ہیں:) مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا ہے، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ پھر نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اہل حجاز نے کہا: حاکم اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کرے، خواہ وہ اس معاملے پر عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد مطلع ہوا ہو اس سے پہلے باخبر ہوا ہو۔ اگر مجلس قضا میں اس کے پاس کوئی فریق دوسرے کے حق کا اقرار کرے تو بھی کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ اس بنیاد ہر کوئی فیصلہ نہ کرے یہاں تک کہ دو گواہوں کو بلائے اور ان کی موجودگی میں ان سے اقرار کرائے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ قاضی مجلس قضا میں جو سنے یا دیکھے تو اس کے مطابق فیصلہ کر دے لیکن جو کچھ عدالت کے باہر دیکھے تو وہ دو گواہوں کی گواہی کے بغیر فیصلہ نہ کرے اور انہیں میں سے کچھ حضرات نے کہا ہے کہ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے اور شہادت کا مقصد بھی تو حق کا جاننا ہے لہذا قاضی کا خیال ہے کہ مالی معاملات کے متعلق تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے اور دوسرے معاملات میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، سیدنا قاسم نے کہا: حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے اگرچہ قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر حیثیت رکھتا ہے لیکن چونکہ اس میں عام مسلمانوں کے نزدیک تہمت کا اندیشہ ہے اور انہیں بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے جبکہ نبی ﷺ نے بدگمانی کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایاتھا: ”یہ میری بیوی صفیہ ہے“ (لہٰذا اسے اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے)