تشریح:
1۔حدیث سابق کے تحت بدگمانی سے بچنے کےضمن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے کا حوالہ دیا گیا تھا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مستقل طور پر مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے متعلق یہ اندیشہ محسوس کیا کہ شاید یہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں اور ان کے دلوں میں کوئی غلط بات بیٹھ جائے جس کی وجہ سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وضاحت کر دی کہ یہ عورت کوئی اجنبی نہیں بلکہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔جب انھوں نےاظہار تعجب کیا کہ یہ ہم آپ کے متعلق بدگمانی کیسے کر سکتے تھے توآپ نے فرمایا: شیطان انسان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے، اس سے ایسا وسوسہ دینا بعید نہیں۔
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تہمت کادورکرنا انتہائی ضروری ہے۔جب حاکم کا اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بدگمانی کو دعوت دیتا ہے تو اسے دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ثبوت اور شہادتیں طلب کی جائیں۔ (فتح الباري: 201/13)