تشریح:
1۔اس حدیث میں قرآن مجید کے متعلق لفظ لَيْتَ استعمال نہیں ہوا جو تمنا اور آرزو کے لیے مختص ہے اور نہ علم ہی کا کوئی ذکر ہے، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے مطابق دوسری روایات کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے: ’’صاحب قرآن جب قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا پڑوسی تلاوت سننے کے بعد کہتا ہے: کاش! مجھے بھی قرآن کی نعمت مل جائے جس طرح اسے ملی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026) اس روایت میں لفظ لیت استعمال ہوا ہے جو تمنی کے لیے مختص ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5025)
2۔اگرچہ اس حدیث میں علم کا ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وہ آدمی جسے حکمت دی گئی ہو وہ اس کے ذریعے سے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 73) اس حدیث میں حکمت سے مراد علم ہے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر علم کا عنوان قائم کیا ہے۔