تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران نماز میں صف بندی کا وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ حضرت انس ؓ نے صف بندی کے ترک کرنے پر انکار کیا ہے اور انکار کبھی ترکِ واجب پر ہوتا ہے اور کبھی ترکِ سنت پر۔ امام بخاری ؒ نے اس کے ترک کو گناہ سے تعبیر کیا ہے، پھر صف بندی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر ہے اور آپ کا امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے ترک پر وعید بھی ہے۔ جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہوچکا ہے۔ گویا صف بندی کے متعلق امرمقرون بالوعید ہے۔ ان تمام قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کا اس کے ترک پر انکار کرنا ترکِ واجب پر انکار کرنا ہے، لیکن یہ ایسا واجب ہے کہ اس کے ترک کرنے پر نماز کا بطلان نہیں ہوگا، کیونکہ حضرت انس ؓ نے ان کے ترک پر انکار کرنے کے باوجود انھیں اپنی نمازیں دوبارہ پڑھنے کے متعلق نہیں کہا۔ اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ نے صف بندی کے ترک پر عثمان نہدی کے پاؤں پر درہ مارا تھا۔ اور حضرت بلال ؓ سے بھی ثابت ہے کہ وہ صف بندی نہ کرنے والوں کو مارتے تھے۔ ان تمام آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دوران نماز میں صف بندی واجب ہے اور اس کے ترک پر انسان گناہ کا مرتکب ہوگا۔ (عمدة القاري:359/4)
(2) احادیث میں حضرت انس سے نماز کے متعلق مختلف اوقات میں تین مرتبہ تنبیہ نقل ہوئی ہے:٭حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ہم نے ظہر کی نماز حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہمراہ ادا کی، اس کے بعد ہم حضرت انس ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ نماز عصر پڑھ رہےتھے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے کون سی نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ نماز عصر ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہم اسی وقت نماز عصر پڑھا کرتے تھے۔ گویا آپ نے تاخیر ظہر پر تنبیہ فرمائی کہ ایسے وقت نہ پڑھی جائے کہ عصر کا وقت آجائے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:549) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ اس وقت امیر مدینہ تھے۔٭حضرت انس ؓ جب بصرے سے مدینہ تشریف لائے تو ان سے لوگوں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے اعتبار سے آپ نے ہمارے ہاں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو اجنبی اور انوکھی ہو؟اس پر انھوں نے فرمایا: اور تو کوئی خاص بات نہیں دیکھی، البتہ تم دوران نماز میں صف بندی نہیں کرتے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 724)٭حضرت انس ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے تو اب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی بات باقی معلوم نہیں ہوتی۔ عرض کیا گیا نماز تو ہے۔ فرمایا: نماز کا تم نے کیا حشر نہیں کیا، یعنی اس میں بھی تم نے بہت تبدیلیاں کر ڈالی ہیں۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:529) اس روایت کی تفصیل اس طرح ہے کہ امام زہری ؒ دمشق میں حضرت انس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں۔ انھوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: جو باتیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں دیکھی تھیں اب ان میں بظاہر نماز رہ گئی ہے، لیکن اسے بھی ضائع کر دیا گیا ہے، یعنی اسے شرعی وقت سے نکال کر مؤخر کرکے ادا کیا جاتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:530)