تشریح:
1۔ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، اس سے اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش تھے، کوئی گفتگو نہیں کرتے تھے، آپ نےفرمایا: ہم چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں زندہ رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقت کرتے لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ برحق ہے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی بدولت ہدایت کا راستہ پایا تھا۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث 7219)
2۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں نے قرآن کوچھوڑدیا تو گمراہ ہو جائیں گے اور قرآن کا مطلب حدیث سے کھُلتا اورواضح ہوتا ہے تو قرآن وحدیث ہی دین کی اصل بنیاد ہیں۔ ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ان کے مطابق عمل کرے۔ جس شخص کا اعتقاد یا عمل قرآن وحدیث کے مطابق نہیں ہوگا وہ کبھی راہ نجات سے ہمکنار نہیں ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کتاب وسنت ہی دین کی اصل بنیاد ہیں، ایک مسلمان کو انھی کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔