تشریح:
1۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے، نماز سے فراغت کے بعد منبرپرچڑھے اور قیامت کا ذکر فرمایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوالات کرنے کی اجازت دی تو لوگوں نے بے فائدہ قسم کے سوال پوچھنے شروع کر دیے، مثلاً: میری گم شدہ اونٹنی کہاں ہے؟ قیامت کب آئے گی؟ کیا حج ہرسال فرض ہے؟ کیا صفا پہاڑی سونا بن سکتی ہے؟ میرا باپ کون ہے؟ میرا انجام کیا ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے بلامقصد سوالوں پر غصہ آیا۔ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے۔ اس لیے انھوں نے معذرت کی اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے درگزر فرمائیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث 7294 و فتح الباري: 331/13)
2۔ایک روایت میں ہے کہ جب عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا: ’’تیرا باپ حذافہ ہے۔‘‘ وہ اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے اس کا ذکر کیا تو اس کی ماں اسے کہنے لگی: تجھے معلوم ہے کہ ہم نے دور جاہلیت گزارا ہے۔ شاید تو میری رسوائی کا باعث بن جاتا، اس نے جواب دیا: میں اپنے باپ کے متعلق جاننا چاہتا تھا خواہ وہ کوئی ہوتا۔ (مسند أحمد: 503/2)
3۔اس قسم کے سوالات پر پابندی لگانا ضروری تھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر انھیں ظاہر کردیا جائے تو تمھیں ناگوار گزرے۔‘‘ (المآئده: 101) اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی اور کہا: ہم اس قسم کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ (فتح الباري: 331/13)