قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأْيِ وَتَكَلُّفِ القِيَاسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {وَلاَ تَقْفُ} [الإسراء: 36] «لاَ تَقُلْ» {مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ} [هود: 46]

7308.01. ح و حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ لَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرَ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ شَهِدْتُ صِفِّينَ وَبِئْسَتْ صِفُّونَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

جیسا کہ ارشاد باری ہے سورۃ بنی اسرائیل میں ولا تقف لا تقل ما لیس لک بہ علم یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو ۔ تشریح : یا تکلف کے ساتھ قیاس کرنے کی جیسے حنفیہ نے استحسان نکالا ہے یعنی قیاس جلی کے خلاف ایک باریک علت کو لینا ہماری شرع میں ان باتوں کو کسی صحابی نے پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کتاب وسنت پر عمل کرتے رہے جس مسئلے میں کتاب وسنت کا حکم نہ ملا اس میں اپنی رائے کو دخل دیا وہ بھی سیدھے سادھے طور سے اور پیچ دار وجہوں سے ہمیشہ پر ہیز کیا ۔ ترجمہ باب میں رائے کی مذمت سے وہی رائے مراد ہے جو نص ہوتے ساتھی دی جائے۔

7308.01.

سیدنا اعمش سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ابو وائل سے پوچھا: کیا تم جنگ صفین میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر میں نےسیدنا سہل بن حنیف ؓ کو یہ کہتے سنا۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ سہل بن حنیف فرماتے ہیں: اے لوگو! اپنے دین کے سلسلے میں اپنی رائے کو کمزور خیال کرو۔ بلاشبہ ابو جندل ؓ کے دن میں نے خود اپنے آپ کو دیکھا اگر مجھ میں طاقت ہوتی کہ میں نے خود اپنے آپ کو دیکھا اگر مجھ میں طاقت ہوتی کہ میں رسول اللہ ﷺ کا حکم رد کرسکتا رد ضرور کر دیتا۔ ہم نے کسی مہم کو سر کرنے کے لیے جب آپبی تلواریں کندھوں پر رکھیں تو ان کی بدولت ہمیں آسانی مل جاتی جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے مگر اس مہم میں (ہم مشکل میں گرفتار رہے)۔ سیدنا ابو وائل نے کہا: میں صفین میں موجود تھا لیکن صفین کی لڑائی بہت بری تھی (جس میں مسلمان آپس میں کٹ مرے)۔