قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺوَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ ﷺوَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ ﷺ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ

7325. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ قَالَ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ وَلَوْلَا مَنْزِلَتِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ مِنْ الصِّغَرِ فَأَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً ثُمَّ أَمَرَ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَ النِّسَاءُ يُشِرْنَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَتَاهُنَّ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور مدینہ میں جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور آپ کی قبر شریف کا بیان ۔ تشریح : یا اللہ اس مبارک ترین وقت سحر میں میری غلطیاں معاف فرمانے والے میری قلم میں طاقت عطا کرتا کہ میں تیرے حبیب رسول کریم حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے عظیم ذخیرہ کی یہ آخری منزل تیری اور تیرے حبیب ﷺم کی عین منشا کے مطابق لکھ سکوں اور اسے بخیر وخوبی اشاعت میں لا سکوں۔ یااللہ ! اس عظیم خدمت کو قبول فرما کر جملہ معاونین کرام ومخلصین عظام کے حق میں اسے بطور جاریہ قبول فرما لے اور میری آل واولاد کے لیے ‘ والدین کے لیے ذخیرہ دارین بنائیو۔ آمین رب العالمین۔ رب یسر ولا تعسر وتمم بالخیر بک نستعین۔ ( خادم محمد داؤد راز ا17 رمضان سنہ ۔ 1397ھ ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد فرما کر ان معاندین کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو کہتے رہتے ہیں کہ اہل حدیث مدینہ کی حقیقی عظمت نہیں کرتے‘ یہ اجماع کے منکر ہیں ‘ یہ درود نہیں پڑھتے ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو نیک ہدایت دے کہ وہ ایسی ہفوات باطلہ سے باز آئیں۔ کسی مومن مسلمان پر تہمت الزام لگا نا بد ترین گناہ ہے ۔ بہر حال اکثر علماءکا یہ قول ہے کہ اجماع جب معتبر ہوتا ہے کہ تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اس مسئلہ پر اتفاق کر لیں ‘ ایک کا بھی اختلاف نہ ہو ۔ حضرت امام مالک نے اہل مدینہ کا اجماع بھی معتبر کہا ہے ۔ حضرت امام بخاری کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہل مکہ اور اہل مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے ۔ مگر حافظ نے کہا امام بخاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل مکہ ومدہنہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل ملہ اور مدینہ اتفاق کریں ۔ بعض لوگوں نے اہل بیت اور خلفاءاربعہ کا اتفاق ۔ بعض لوگوں نے ائمہ اربعہ کا اتفاق اجماع سمجھا ہے ۔ مگر جمہور کا وہی قول ہے کہ ایسے اتفاقات اجماع نہیں ہو سکتے ۔ جب تک تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اتفاق نہ کر لیں ۔ حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا اجماع کا دعویٰ ہے کہ طالب حق کو اس سے کچھ خوف نہ کرنا چاہئیے۔ میں ( وحید الزماں ) کہتا ہوں اس وقت ( 1323ھ ) میں حرمین شریفین میں بہت سی بدعات اور امور خلاف شرع جاری ہیں ۔ ( مگر آج سعودی دور1397ھ ہے ) الحمد للہ اس حکومت نے حر مین شریفین کو بیشتر بدعات اور خرافات سے پاک کردیا ہے ۔ اللہ پاک تحفظ حرمین شریفین کے لیے اس حکومت کو قاءودائم رکھے اور ان کو ہمیشہ کتاب وسنت کی اتباع پر استقامت عطا کرے ( آمین ) پس خلاف شرع امور اہل حرمین کا اجماع کوئی حجت نہیں ہے ۔ طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے اور جس قول کی دلیل قوی ہو ۔ اس کو اختیار کرنا چاہئیے گو اس کے قائل قلیل ہوں البتہ بہت سے مسائل ہیں جن پر تمام جہاں کے علماءاسلام سے شرقاً وغرباً اتفاق کیا ہے اور ایک مجتہد یا عالم سے بھی ان میں اختلاف منقول نہیں ہے ۔ ایسے مسائل میں بے شک اجماع کا خلاف کرنا جائز نہیں ہے ( خلاصہ شرح وحیدی ) ائمہ اربعہ کی تقلید جامد پر بھی اجماع کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ہر قرن اور ہر زمانہ میں اس جمود کی مخالف کرنے والے بیشتر اکابر علماءاسلام ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ جیسا کہ کتب تاریخ میں تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔ دیکھو کتب اعلام الموقعین ومعیار الحق وغیرہ )

7325.

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے ان سے پوچھا گیا: تم نبی ﷺ کے ہمراہ عید میں حاضر تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں میں اس وقت کم سن تھا۔ اگر آپ ﷺ کا تعلق دار نہ ہوتا تو بچپن کے باعث حاضر نہ ہوسکتا۔ آپ ﷺ گھر سے نکل کر اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے۔ وہاں آپ نے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا۔۔۔۔۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ نے صدقہ دینے کا حکم دیا تو عورتیں اپنے کانوں اور گریبانوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگیں۔ آپ ﷺ نے سیدنا بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں کے پاس آئے۔ پھر وہ (ان سے صدقات لے کر) نبی ﷺ کے پاس واپس چلے گئے۔