تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاحکام میں اس عنوان سے ملتا جلتا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب إِذَا قَضَى الْحَاكِمُ بِجَوْرٍ أَوْ خِلاَفِ أَهْلِ الْعِلْمِ فَهْوَ رَدٌّ) ’’جب کوئی حاکم اہل علم کےخلاف یا ظلم پر مبنی فیصلہ کرےتو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأحکام، باب: نمبر35) یہ تکرار نہیں بلکہ پہلا عنوان اجماع کے خلاف اور مذکورہ عنوان سنت کے خلاف فیصلے کورد کرنے سے متعلق ہے۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے سنت کے خلاف فیصلہ کیا ہے خواہ وہ جہالت یا غلطی کی وجہ سے ہو تو حق واضح ہونے کے بعد اس سے رجوع ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کتنے فیصلے ایسے ہیں کہ حق معلوم ہونے کے بعد انھوں نے رجوع کیا اور اپنے غلط موقف کو چھوڑ دیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس حدیث کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ صحابی نے اجتہاد کیا اور ردی کھجوریں دے کر مقدار میں کم،عمدہ کھجوریں لے لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو غلط قرار دیا اگرچہ اجتہاد کی وجہ سے اسے معذور خیال کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اوہ یہ توعین سود ہے۔ اس طرح مت کرو۔‘‘ ایسا کام آئندہ مت کرنا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کام کو برقرار نہیں رکھا بلکہ اسے غلط کہہ کر مسترد کر دیا۔ (صحیح البخاري، الوکالة، حدیث: 2312 و فتح الباري: 389/13)