تشریح:
1۔دراصل امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسا قرینہ حائل نہ ہو۔ جو اسے وجوب سے پھیر دے۔ اگر وہاں کوئی قرینہ صارفہ پایا گیا تو اس وقت اپنی وضع اور بناوٹ سے ہٹ کر وجوب کے لیے نہیں رہتا جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ حکم دیا کہ نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو تیسری مرتبہ جو پڑھنا چاہے فرمایا۔ یہ الفاظ ایک ایسا قرینہ ہے جو اس حکم کو وجوب سے پھیر رہا ہے۔ اس میں کھلا اشارہ ہے کہ مغرب سے پہلے دو نفل ادا کرنا ضروری نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ بکثرت پڑھتے تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو ہم سب لوگ ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے دورکعت پڑھتے کہ اجنبی انسان گمان کرتا کہ مغرب کی جماعت ہو چکی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1939(837) حضرت مرثد بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یہ عجیب بات نہیں کہ ابو تمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پڑھتےتھے۔ اس نے پوچھا: اب کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1184) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعت ادا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ رہے ہوتے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع ہی کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1938(838)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اصل میں امر وجوب کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر امر سے پھیرنے والا کوئی قرینہ آجائے تو وجوب سے ہٹ جاتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لِمَنْ شَاءَ) فرما کر اس وجوب کو ختم کیا۔ واللہ أعلم۔