تشریح:
1۔صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں آیت اس طرح ہے: ’’میں ہی رزاق، بڑی قوت والا (اور) نہایت طاقتور ہوں‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔انھوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ (فتح الباري: 440/13 ومسند أحمد: 394/1)
2۔یہ آیت اور اس طرح کہ دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عالی صفات سے متصف ہے اور اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں "القوۃ" اس کی صفت ہے اور "الرزاق" اس کا نام ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک صفت کو متضمن ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات سے منکرین صفات باری تعالیٰ کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے حلم، اس کی بردباری اور حوصلے کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ وہ کافر جو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد اور شراکت کو منسوب کرتا ہے اسے بھی صحت وعافیت دیتا ہے اور اسے رزق وافر عطا کرتا ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت صبر کو بیان کیا گیا ہے جو اپنے معنی میں مبنی برحقیقت ہے۔ صبر یہ ہے کہ قوت انتقام کے باوجود درگزر سے کام لینا۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ صفبر اور حلم کا اندازہ درج ذیل آیات سے لگایا جا سکتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہی یقیناً آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں سرک نہ جائیں اور اگر وہ سرک جائیں تو اس کے بعد انھین کوئی بھی اپنی جگہ پر برقرار رکھ سکتا۔ بلاشبہ وہ بڑا بردبار بے حد معاف کرنے والا ہے۔‘‘ (فاطر 35/41) یعنی وہ ہستی اس قدر قوت اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شرک کرنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کر دیتا بلکہ اپنے باغیوں، منکرین اور نافرمانوں سے درگزر کیے جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بُری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اورپہاڑ دھڑام سے گر پڑیں اس بات پر کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘ (مریم 88۔92) یعنی محض یہ اللہ تعالیٰ کی بردباری ہے کہ ایسی بے ہودہ بات سن کر بھی یکدم تباہ نہیں کرتا۔
3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ عنوان میں دو صفات کا ذکر ہے: ایک مخلوق کو رزق فراہم کرنا، دوسرے زبردست قوت کا مالک ہونا جو اس کی قدرت کاملہ سے عبارت ہے۔ رزق دینے کا ذکر تو حدیث میں موجود ہے اور قوت کا ثبوت اس طرح ہے کہ تکلیف دہ باتیں سن کر صبر کرنا اس کی قوت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بشری طبیعت تو ایسی تکلیف دہ اور اذیت ناک باتیں سن کر انتقام لینے کے لیے بھڑک اٹھتی ہے۔ انسان ایسے حالات میں فوراً بدلہ لینے میں جلدی کرتا ہے تاکہ موقع ضائع نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی زبردست طاقت کے باوجود انتقام نہیں لیتا اور یہ کسی عجز یا بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ صبر، بردباری اور حوصلے کی وجہ سے جو اس کی قوت وطاقت کی علامت ہے۔ (فتح الباري: 441/13)
4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت ناموں اور بلند پایہ صفات کو مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ مذکورہ الفاظ سے ان کا مفہوم فورا ذہن میں آتا ہے۔ اس کے متعلق کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے اور نہ انھیں سمجھنے کے لیے منطقی اصطلاح یا کسی فلسفی کی موشگانی ہی کی ضرورت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 102/1)