تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس امر کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت کریمہ میں "حق" سے مراد کلمہ (كُنْ) ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، کیونکہ جو چیز کلمہ (كُنْ) سے پیدا ہوگی اور مخلوق اور کلمہ (كُنْ) غیر مخلوق ہے۔ جس کلمے سے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ کسی صورت میں مخلوق کے مماثل نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے قول اور اس کی مخلوق کے درمیان فرق کرنا انتہائی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی صفت ہے اور جو چیز اس کے باعث معرض وجود میں آئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔
2۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استشہاد (قولُك الحقَ) ہے۔ آپ نے مسئلہ کلام اللہ میں فرق جہمیہ اور اشاعرہ کا رد کیا ہے۔ کلامُ اللہ کے متعلق جہمیہ کا نظریہ یہ ہے کہ کلام، اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سے ہوا میں پیدا کیا ہے یا جس جگہ سے کلام سنائی دیتا ہے وہاں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اضافت خلق ہے جیساکہ ناقۃاللہ یا اضافت تشریف ہے جیسا کہ بیت اللہ۔ اس کے متعلق اشاعرہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے لیکن اس کی مشیت سے متعلق نہیں۔ سنے جانے والے حروف والفاظ اور آوازیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جو اس نے اپنی ذاتی صفت کلام کی تعبیر کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے موقف کا جائزہ ہم آئندہ پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کو بلاتحریف وتعطیل اور بلاتکییف وتمثیل ثابت کیا جائے اور اسے حقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ اس کی ذات کے لائق ہے۔ اور اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے اور وہ حروف اورسنی جانے والی آواز کےساتھ کلام فرماتا ہے۔ اس موقف پر سلف صالحین کا اتفاق ہے۔ واللہ أعلم۔
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کچھ زائد الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی حدیث قبیصہ نے جب یہ حدیث سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی ہے تو اس (قولُك الحقَ) سے پہلے (أَنْتَ الْحَقُّ) کے الفاظ ساقط ہوگئے۔ جبکہ ثابت بن محمد نے حضرت سفیان سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے۔یہ الفاظ مکمل سیاق کے ساتھ آگے بیان ہوں گے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7442)